Skip to product information
1 of 9

Elite Books

Lahore Ek Qos-E-Qaza /لاہور ایک قوس قزح

Lahore Ek Qos-E-Qaza /لاہور ایک قوس قزح

Regular price Rs.1,300.00 PKR
Regular price Rs.1,950.00 PKR Sale price Rs.1,300.00 PKR
Sale Sold out

اعلام نامہ

گزشتہ کئی برسوں میں کیا کچھ نہیں لکھا اور کیا کچھ نہیں کہا۔ مگر ناجانے کیوں اب لکھنے بیٹھا ہوں تو سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کہا جائے۔ اب منٹو تو میں ہونے سے رہا کہ جب جب ”اشیائے ضروریہ“ کی طلب ہو بس ٧٨٦ لکھوں اور بغیر کاٹے لکھتا چلا جاؤں۔ بہرکیف کچھ بتلانا تو ہے سو لکھنا ضروری ہے۔ صاحبو گزشتہ برسوں میں مختلف مضامین پر مجھے کہا جاتا رہا کہ میں ان مضامین کو ترتیب دوں، محفوظ کروں۔ کبھی اس قابل خاص جانا تو نہیں۔ مگر سوچا کہ فیس بُک پر بمع تمام تر حوالہ جات تحریر دینا مشکل ہوتا ہے۔ اسی کے پیش نظر سوچا کہ کیوں نا ان مضامین کو مرتب کر ہی دیا جائے اور ٢٠١٦ء سے ٢٠٢٢ء میں تحریر کردہ مضامین کے حوالے لگانا شروع کیے۔ البتہ انہیں از سر نو مرتب کرنے کا خاص وقت نہیں مل سکا۔ اب تو جو بھی تدوین کی اسے بھی ہوئے قریباً دو برس ہو گے ہیں۔ بہرکیف یہ کام اب بالآخر تکمیل کے قریب ہے۔

سچ کہوں تو میرے ذہن کے کسی نہاں گوشے میں بھی کبھی یہ خیال نہیں رہا کہ میں نے کبھی ان مضامین کو شائع کروانا ہے۔ بس جو دیکھا، محسوس کیا اور دوران جستجو دستیاب ہوا اسے لکھتا رہا۔ اب یہ ایک طفل مکتب کا شہر لاہور سے عاجزانہ سا اظہارِ محبت ہے اور کسی تحقیق کا کوئی خاص دعویٰ نہیں۔ پھر میں ایک عجب دوراہے پر ہوں کہ سوچوں کا اِک بار ہے کہ ایسا کچھ کیا تو نہیں کہ اس پر نازاں ہوا جائے اور قارئین اکرام کو بتایا جاوے۔ یونہی ندامت بھی دامن گیر ہے کہ ہر سطر دیکھتے ہوئے سوچتا ہوں کہ کاش اسے یوں لکھتا یا فلاں فلاں پہلو تشنہ رہ گیا۔ مگر کیا کریں کہ عرصہ قبل ایک ناصح و محسن نے سمجھایا تھا کہ یہ ارتقاء کبھی نہیں رکتا اور روز طلوع ہونے والے سورج کی کرنیں ہماری جہالت کے اندھیرے کو ہر دن کچھ قدرے کم کرتی ہیں۔ گویا وہی بات کہ انسان گود سے گور تک سیکھتا ہے اور جس دن ہم یہ سمجھ بیٹھیں کہ اب سیکھنے کی حاجت نہیں تو وہ دن یا تو کوچ کرنے کا ہو گا یا پھر دوسرے معنوں میں ’موت’ کی طرح ہو گا۔ پس اسی کے مصداق احقر بھی سیکھنے کو ہر دم کوشاں ہے اور اسی بیچ یہ ایک ادنیٰ سی کوشش کہہ لیں وہ پیش خدمت ہے۔
اس خبر کے اختتام سے پہلے ایک اعتراف کرنا چاہوں گا جو کہ یوں تو ہے روایتی مگر میری دانست میں ضروری بھی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے پیچھے ایک تکون ہے۔ اول اپنی آپا جی جو کہ قریباً ہر گفتگو میں کھانے، صحت، مصروفیات کا پوچھنے کے ساتھ ساتھ کہیں نا کہیں کتاب کا تذکرہ لے ہی آتی ہیں۔ یونہی ہیں ہمارے پیارے لالہ یعنی قبلہ ماجد مشتاق صاحب۔ جناب ہمارے لیے تو ماجد ہیں ہی یعنی بزرگی والے و قابل صد احترام۔ مگر اب معلوم ہوا کہ حضور والا پوری طرح اسم بامسمی ہیں۔ یقین جانیں جو اشتیاق اس کتاب کی تیاری میں ان کا تھا، یہ عاجز خود اس کے قریب بھی نہیں بھٹکتا۔ پھر آتے ہیں ہمارے محبی جناب اسد اللہ۔ اسد صاحب کو کیا کہیں اور ان کی بابت کیا لکھیں۔ چڑھتی جوانی کے ایام ہوں، بندہ تازہ تازہ جامعہ میں وارد ہوا ہو اور پھر ایسے ماحول میں جب لڑکوں کے امور دلچسپی کچھ اور ہی ہوتے ہیں، یہ بندہ دن ہو یا رات قبرستان ہو یا اجڑی حویلیاں، مندر، مسجد ہر جا ساتھ رہا۔ پس یہ تکون نا ہوتی تو میرا ان مضامین کو شائع کرنا تو درکنار، لکھنے کے لیے بھی خود کو سمجھانا قریباً ناممکن تھا۔
یونہی فہیم عالم صاحب کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جنہوں نے ایک نئے لکھاری پر سرمایہ خرچ کرنے کی جرات کی اور کتاب کو خوش اسلوبی سے تکمیل تک پہنچانے میں کوشاں ہیں۔ جناب طارق عزیز کو کیسے بھولیں کہ جنہوں نے تصاویری اوراق و سرورق کو اپنی مہارت، محنت و محبت سے مزین کیا۔ سو میں ان سبھی کا سپاس گزار ہوں اور ان تمام کا بھی جنہوں نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی، اصلاح کی اور ان تمام احباب کا بطورِ خاص جنہوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر تنقید کی۔ خدا جانتا ہے مجھے ایسے لوگ بڑے پیارے لگتے ہیں۔ یعنی میں کسی کو خواہ روپے دوں نا تو وہ بھی کبھی میری لکھی ہر سطر میں تذکیر و تانیث سے لے کر حوالہ جات تک یوں باریک بینی سے ہر شے کا جائزہ نہ لے۔ گویا یہ ”محسنین“ قابل ستائش ہیں۔ جنہوں نے مجھے خود قدرے محتاط رہنے اور پھر بھی رہ جانے والی اغلاط کی تصیح کے برابر مواقع فراہم کیے۔ ویسے میں اب سوچ رہا ہوں کہ پہلے پہل آغاز نہیں ہو رہا تھا اور اب گفتگو کو سمیٹا نہیں جا رہا۔ لیکن جیسے وہ ناگزیر تھا اب اختتام بھی لازم ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی اطلاع تھی جس کو بتانے و کہنے میں کچھ جھجھک سی ہو رہی تھی۔ خیر اب گیند قارئین اکرام کی کورٹ میں ہے اور آپ کا فیصلہ جو بھی ہو اس پر سر تسلیم خم ہے۔

Customer Reviews

Be the first to write a review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
View full details